ضربِ کلیم

 

 

 

Zarb-e-Kaleem by Allama Iqbal presented by www.UrduJini.com

 

 

 

 

 

علاّمہ محمّد اقبال

 


فہرست

ناظرین سے.. 8

تمہید. 8

اسلام اور مسلمان.. 9

صبح. 9

لا الہ الا اللہ... 10

تن بہ تقدیر 11

معراج. 11

ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام. 12

زمین و آسماں.. 13

مسلمان کا زوال.. 13

علم و عشق.. 13

اجتہاد. 14

شکر و شکایت... 14

ذکر و فکر 15

ملائے حرم. 15

تقدیر 15

توحید. 16

علم اور دین.. 16

ہندی مسلمان.. 17

آزادی شمشیر کے اعلان پر 17

جہاد. 17

قوت اور دین.. 18

فقر و ملوکیت... 18

اسلام. 19

حیات ابدی.. 19

سلطانی.. 19

صوفی سے.. 20

افرنگ زدہ. 20

تصوف... 21

ہندی اسلام. 21

غزل.. 22

دنیا 22

نماز 23

وحی.. 23

شکست... 23

عقل و دل.. 24

مستی کردار 24

قبر 24

قلندر کی پہچان.. 24

فلسفہ. 25

مردان خدا 25

کافر و مومن.. 26

مہدی برحق.. 26

مومن.. 27

محمد علی باب... 27

تقدیر 28

اے روح محمد. 28

مدنیت اسلام. 29

مدنیت اسلام. 29

امامت... 30

فقر و راہبی.. 30

غزل.. 31

تسلیم و رضا 31

نکتۂ توحید. 32

الہام اور آزادئ جان و تن.. 32

لاہور و کراچی.. 32

نبوت... 33

آدم. 33

مکہ اور جنیوا 33

اے پیر حرم. 34

مہدی.. 34

مرد مسلمان.. 34

پنجابی مسلمان.. 35

آزادی.. 35

اشاعت اسلام فرنگستان میں.. 36

لاوالا. 36

امرائے عرب سے.. 36

احکام الہی.. 37

موت... 37

قم باذن اللہ... 37

تعلیم و تربیت... 38

مقصود. 38

زمانۂ حاضر کا انسان.. 38

اقوام مشرق.. 39

آگاہی.. 39

مصلحین مشرق.. 39

مغربی تہذیب... 40

اسرار پیدا 40

سلطان ٹیپو کی وصیت... 40

غزل.. 41

بیداری.. 41

خودی کی تربیت... 42

آزادی فکر 42

خودی کی زندگی.. 42

حکومت... 43

ہندی مکتب... 43

تربیت... 44

خوب و زشت... 44

مرگ خودی.. 44

مہمان عزیز 45

عصر حاضر 45

طالب علم. 45

امتحان.. 46

مدرسہ. 46

حکیم نطشہ. 46

اساتذہ. 47

غزل.. 47

دین و تعلیم. 48

جاوید سے.. 48

عورت... 51

مرد فرنگ.... 51

ایک سوال.. 51

پردہ. 51

خلوت... 52

عورت... 52

آزادی نسواں.. 52

عورت کی حفاظت... 53

عورت اور تعلیم. 53

عورت... 54

ادبیات فنون لطیفہ. 54

دین و ہنر 55

تخلیق.. 55

جنوں.. 56

اپنے شعر سے.. 56

پیرس کی مسجد. 56

ادبیات... 57

نگاہ. 57

مسجد قوت الاسلام. 57

تیاتر 58

شعاع امید. 58

امید. 60

نگاہ شوق.. 60

اہل ہنر سے.. 61

غزل.. 61

وجود. 62

سرود. 62

نسیم و شبنم. 62

اہرام مصر 63

مخلوقات ہنر 63

اقبال.. 64

فنون لطیفہ. 64

صبح چمن.. 64

خاقانی.. 65

رومی.. 66

جدت... 66

مرزا بیدل.. 66

جلال و جمال.. 67

مصور 67

سرود حلال.. 68

سرود حرام. 68

فوارہ. 68

شاعر 69

شعر عجم. 69

ہنروران ہند. 70

مرد بزرگ... 70

عالم نو 71

ایجاد معانی.. 71

موسیقی.. 71

ذوق نظر 72

شعر 72

رقص و موسیقی.. 72

ضبط.. 73

رقص.... 73

سیاسیاست مشرق و مغرب... 74

اشتراکیت... 74

کارل مارکس کی آواز 74

انقلاب... 75

خوشامد. 75

مناصب... 75

یورپ اور یہود. 76

نفسیات غلامی.. 76

غلاموں کے لیے.. 76

اہل مصر سے.. 77

ابی سینیا 77

جمعیت اقوام مشرق.. 78

سلطانی جاوید. 78

جمہوریت... 78

یورپ اور سوریا 79

مسولینی.. 79

گلہ. 80

انتداب... 80

لادین سیاست... 81

دام تہذیب... 81

نصیحت... 81

ایک بحری قزاق اور سکندر 82

جمعیت اقوام. 82

شام و فلسطین.. 83

سیاسی پیشوا 83

نفسیات غلامی.. 83

غلاموں کی نماز 84

فلسطینی عر ب سے.. 84

مشرق و مغرب... 85

نفسیات حاکمی.. 85

محراب گل افغان کے افکار 86


 

ناظرین سے

 

 

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر

تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

یہ زور دست و ضربت کاری کا ہے مقام

میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ

خون دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات

فطرت ، لہو ترنگ ہے غافل! نہ ، جل ترنگ

تمہید

(1)

 

 

نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری

کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے

بری ہے مستئ اندیشہ ہائے افلاکی

تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن

کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

عطا ہوا خس و خاشاک ایشیا مجھ کو

کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی!

 

 

(2)

 

 

ترا گناہ ہے اقبال! مجلس آرائی

اگرچہ تو ہے مثال زمانہ کم پیوند

جو کوکنار کے خوگر تھے، ان غریبوں کو

تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند

تڑپ رہے ہیں فضاہائے نیلگوں کے لیے

وہ پر شکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند

تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی

مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی

 اسلام اور مسلمان

صبح

(1)

 

 

نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری

کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی

اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے

بری ہے مستئ اندیشہ ہائے افلاکی

تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن

کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی

زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا

ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی

عطا ہوا خس و خاشاک ایشیا مجھ کو

کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی!

 

 

(2)

 

 

ترا گناہ ہے اقبال! مجلس آرائی

اگرچہ تو ہے مثال زمانہ کم پیوند

جو کوکنار کے خوگر تھے، ان غریبوں کو

تری نوا نے دیا ذوق جذبہ ہائے بلند

تڑپ رہے ہیں فضاہائے نیلگوں کے لیے

وہ پر شکستہ کہ صحن سرا میں تھے خورسند

تری سزا ہے نوائے سحر سے محرومی

مقام شوق و سرور و نظر سے محرومی

 

لا الہ الا اللہ

 

 

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ

کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا

فریب سود و زیاں ، لا الہ الا اللہ

یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری

نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ


تن بہ تقدیر

 

 

اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم

جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر

'تن بہ تقدیر' ہے آج ان کے عمل کا انداز

تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر

تھا جو 'ناخوب، بتدریج وہی ' خوب' ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

 

معراج

 

 

دے ولولۂ شوق جسے لذت پرواز

کر سکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج

مشکل نہیں یاران چمن ! معرکہ باز

پر سوز اگر ہو نفس سینۂ دراج

ناوک ہے مسلماں ، ہدف اس کا ہے ثریا

ہے سر سرا پردۂ جاں نکتہ معراج

تو معنیِ و النجم ، نہ سمجھا تو عجب کیا

ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج


ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام

 

 

تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا

زناری برگساں نہ ہوتا

ہیگل کا صدف گہر سے خالی

ہے اس کا طلسم سب خیالی

محکم کیسے ہو زندگانی

کس طرح خودی ہو لازمانی!

آدم کو ثبات کی طلب ہے

دستور حیات کی طلب ہے

دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق

مومن کی اذاں ندائے آفاق

میں اصل کا خاص سومناتی

آبا مرے لاتی و مناتی

تو سید ہاشمی کی اولاد

میری کف خاک برہمن زاد

ہے فلسفہ میرے آب و گل میں

پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں

اقبال اگرچہ بے ہنر ہے

اس کی رگ رگ سے باخبر ہے

شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز

سن مجھ سے یہ نکتۂ دل افروز

انجام خرد ہے بے حضوری

ہے فلسفۂ  زندگی سے دوری

افکار کے نغمہ ہائے بے صوت

ہیں ذوق عمل کے واسطے موت

دیں مسلک زندگی کی تقویم

دیں سر محمد و براہیم

''دل در سخن محمدی بند

اے پور علی ز بو علی چند!

چوں دیدۂ راہ بیں نداری

قاید قرشی بہ از بخاری ''

-------------

فارسی اشعار حکیم خاقانی کی 'تحفۃ العراقین' سے ہیں


زمین و آسماں

 

 

ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں

اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا

ہے سلسلۂ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں

اے سالک رہ! فکر نہ کر سود و زیاں کا

شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی

تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!

 

مسلمان کا زوال

 

 

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں

اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور

قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے

زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا

قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

 

علم و عشق

 

 

علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن

عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

بندۂ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن

عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!

عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات

علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات

عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات

علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!

عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں

عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں

عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں

عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!

شرع محبت میں ہے عشرت منزل حرام

شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام

عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام

علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!

 

اجتہاد

 

 

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے

نہ کہیں لذت کردار، نہ افکار عمیق

حلقۂ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں

آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!

ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب

کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق!

 

شکر و شکایت

 

 

میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا

رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند

تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں

مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند

لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے

جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند!

 

ذکر و فکر

 

 

یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام

وہ جس کی شان میں آیا ہے 'علم الاسما'

مقام ذکر، کمالات رومی و عطار

مقام فکر، مقالات بوعلیسینا

مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکاں

مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلی

 

ملائے حرم

 

 

عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو

تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام

تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال

تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

 

تقدیر

 

 

نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت

ہے خوار زمانے میں کبھی جوہر ذاتی

شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں

تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی

ہاں، ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو

تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی

'ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی

براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی!'

 

توحید

 

 

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی

آج کیا ہے، فقط اک مسئلۂ علم کلام

روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو

خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

میں نے اے میر سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے

'قل ھو اللہ، کی شمشیر سے خالی ہیں نیام

آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ

وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے

اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام!

 

علم اور دین

 

 

وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم

کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم

زمانہ ایک ، حیات ایک ، کائنات بھی ایک

دلیل کم نظری، قصۂ جدید و قدیم

چمن میں تربیت غنچہ ہو نہیں سکتی

نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریک نسیم

وہ علم، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں

تجلیات کلیم و مشاہدات حکیم!


 

ہندی مسلمان

 

 

غدار وطن اس کو بتاتے ہیں برہمن

انگریز سمجھتا ہے مسلماں کو گداگر

پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت

کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر

آوازۂ حق اٹھتا ہے کب اور کدھر سے

'مسکیں ولکم ماندہ دریں کشمکش اندر'!

 

آزادی شمشیر کے اعلان پر

 

 

سوچا بھی ہے اے مرد مسلماں کبھی تو نے

کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

اس بیت کا یہ مصرع اول ہے کہ جس میں

پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ

اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن

یا خالد جانباز ہے یا حیدر کرار

 

جہاد

 

 

فتوی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود و بے اثر

تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں

ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل

کہتا ہے کون اسے کہ مسلماں کی موت مر

تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی

دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخ کلیسا نواز سے

مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

 

قوت اور دین

 

 

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے

'صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک،

اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے

عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

 

 

فقر و ملوکیت

 

 

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے

ضرب کاری ہے، اگر سینے میں ہے قلب سلیم

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے

تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم

اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور

کھا گئی روح فرنگی کو ہوائے زروسیم

عشق و مستی نے کیا ضبط نفس مجھ پہ حرام

کہ گرہ غنچے کی کھلتی نہیں بے موج نسیم

 

اسلام

 

 

روح اسلام کی ہے نور خودی ، نار خودی

زندگانی کے لیے نار خودی نور و حضور

یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصل نمود

گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور

لفظ 'اسلام، سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر

دوسرا نام اسی دین کا ہے 'فقر غیور

 

حیات ابدی

 

 

زندگانی ہے صدف، قرۂ نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

ہو اگر خودنگر و خودگر و خودگیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

 

سلطانی

 

 

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی

خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی

یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی

یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار

اسی مقام سے آدم ہے ظل سبحانی

یہ جبر و قہر نہیں ہے ، یہ عشق و مستی ہے

کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہاں بانی

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو

کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی

مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود

خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی

ہوا حریف مہ و آفتاب تو جس سے

رہی نہ تیرے ستاروں میں وہ درخشانی

------------------------

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

 

صوفی سے

 

 

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا

مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

تخیلات کی دنیا غریب ہے، لیکن

غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری

بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا

 

افرنگ زدہ

 

(1)

 

 

ترا وجود سراپا تجلی افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تو، زرنگار و بے شمشیر!

 

 

(2)

 

 

تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود

مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا

وجود کیا ہے، فقط جوہر خودی کی نمود

کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا

 

تصوف

 

 

یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی

حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار

شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

خرد نے کہہ بھی دیا 'لاالہ' تو کیا حاصل

دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری

فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

---------------------------

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

 

ہندی اسلام

 

 

ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوت بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد

اے مرد خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

مسکینی و محکومی و نومیدی جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

 

غزل

 

 

دل مردہ دل نہیں ہے،اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

ترا بحر پر سکوں ہے، یہ سکوں ہے یا فسوں ہے؟

نہ نہنگ ہے، نہ طوفاں، نہ خرابی کنارہ!

تو ضمیر آسماں سے ابھی آشنا نہیں ہے

نہیں بے قرار کرتا تجھے غمزۂ ستارہ

ترے نیستاں میں ڈالا مرے نغمۂ سحر نے

مری خاک پے سپر میں جو نہاں تھا اک شرارہ

نظر آئے گا اسی کو یہ جہان دوش و فردا

جسے آگئی میسر مری شوخی نظارہ

 

دنیا

 

 

مجھ کو بھی نظر آتی ہے یہ بوقلمونی

وہ چاند، یہ تارا ہے، وہ پتھر، یہ نگیں ہے

دیتی ہے مری چشم بصیرت بھی یہ فتوی

وہ کوہ ، یہ دریا ہے ، وہ گردوں ، یہ زمیں ہے

حق بات کو لیکن میں چھپا کر نہیں رکھتا

تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے، نہیں ہے!


 

نماز

 

 

بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں

اگرچہ پیر ہیں آدم، جواں ہیں لات و منات

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

 

وحی

 

عقل بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں

راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

فکر بے نور ترا، جذب عمل بے بنیاد

سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شب تار حیات

خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر

گر حیات آپ نہ ہو شارح اسرار حیات!

 

شکست

 

 

مجاہدانہ حرارت رہی نہ صوفی میں

بہانہ بے عملی کا بنی شراب الست

فقیہ شہر بھی رہبانیت پہ ہے مجبور

کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگ دست بدست

گریز کشمکش زندگی سے، مردوں کی

اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!

---------------------------

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

 

عقل و دل

 

 

ہر خاکی و نوری پہ حکومت ہے خرد کی

باہر نہیں کچھ عقل خدا داد کی زد سے

عالم ہے غلام اس کے جلال ازلی کا

اک دل ہے کہ ہر لحظہ الجھتا ہے خرد سے

 

مستی کردار

 

 

صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال

ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار

شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق

افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو

ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار

 

قبر

 

مرقد کا شبستاں بھی اسے راس نہ آیا

آرام قلندر کو تہ خاک نہیں ہے

خاموشی افلاک تو ہے قبر میں لیکن

بے قیدی و پہنائی افلاک نہیں ہے

 

قلندر کی پہچان

 

کہتا ہے زمانے سے یہ درویش جواں مرد

جاتا ہے جدھر بندۂ حق، تو بھی ادھر جا!

ہنگامے ہیں میرے تری طاقت سے زیادہ

بچتا ہوا بنگاہ قلندر سے گزر جا

میں کشتی و ملاح کا محتاج نہ ہوں گا

چڑھتا ہوا دریا ہے اگر تو تو اتر جا

توڑا نہیں جادو مری تکبیر نے تیرا؟

ہے تجھ میں مکر جانے کی جرأت تو مکر جا!

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندر

 

فلسفہ

 

 

افکار جوانوں کے خفی ہوں کہ جلی ہوں

پوشیدہ نہیں مرد قلندر کی نظر سے

معلوم ہیں مجھ کو ترے احوال کہ میں بھی

مدت ہوئی گزرا تھا اسی راہ گزر سے

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا

غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے!

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل کہ پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

جس معنی پیچیدہ کی تصدیق کرے دل

قیمت میں بہت بڑھ کے ہے تابندہ گہر سے

یا مردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار

جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے

 

مردان خدا

 

 

وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری

نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش

قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے

انھی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

وجود انھی کا طواف بتاں سے ہے آزاد

یہ تیرے مومن و کافر ، تمام زناری!

 

کافر و مومن

 

 

کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے

تو ڈھونڈ رہا ہے سم افرنگ کا تریاق؟

اک نکتہ مرے پاس ہے شمشیر کی مانند

برندہ و صیقل زدہ و روشن و براق

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق!

 

مہدی برحق

 

 

سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس

خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار

پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں

نے جدت گفتار ہے، نے جدت کردار

ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ

شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار


 

مومن

(دنیا میں)

 

 

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن

(جنت میں(

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن

حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

---------------------

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

 

محمد علی باب

 

 

تھی خوب حضور علما باب کی تقریر

بیچارہ غلط پڑھتا تھا اعراب سموات

اس کی غلطی پر علما تھے متبسم

بولا ، تمہیں معلوم نہیں میرے مقامات

اب میری امامت کے تصدق میں ہیں آزاد

محبوس تھے اعراب میں قرآن کے آیات!


 

تقدیر

(ابلیس و یزداں)

 

ابلیس

 

 

اے خدائے کن فکاں! مجھ کو نہ تھا آدم سے بیر

آہ ! وہ زندانی نزدیک و دور و دیر و زود

حرف 'استکبار' تیرے سامنے ممکن نہ تھا

ہاں، مگر تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود

یزداں

کب کھلا تجھ پر یہ راز، انکار سے پہلے کہ بعد؟

ابلیس

بعد ! اے تیری تجلی سے کمالات وجود!

یزداں

(فرشتوں کی طرف دیکھ کر(

پستی فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجت اسے

کہتا ہے 'تیری مشیت میں نہ تھا میرا سجود،

دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام

ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود!

(ماخوذ از محی الدین ابن عربی(

 

 

اے روح محمد

 

 

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر

اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

 

مدنیت اسلام

 

 

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گونا گوں!

نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں!

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں!

 

 

مدنیت اسلام

 

 

بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے

یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں

طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب

یگانہ اور مثال زمانہ گونا گوں!

نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں

حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں!

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال

عجم کا حسن طبیعت ، عرب کا سوز دروں!

 

امامت

 

 

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے

حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق

جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست

زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے

فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنۂ ملت بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

 

فقر و راہبی

 

 

کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی

تری نگاہ میں ہے ایک ، فقر و رہبانی

سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار

فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

پسند روح و بدن کی ہے وا نمود اس کو

کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی

وجود صیرفی کائنات ہے اس کا

اسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی

اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ

جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی

یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے

رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی

 


 

غزل

 

 

تیری متاع حیات، علم و ہنر کا سرور

میری متاع حیات ایک دل ناصبور!

معجزۂ اہل فکر، فلسفۂ پیچ پیچ

معجزۂ اہل ذکر، موسی و فرعون و طور

مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلماں تجھے

تیرے نفس میں نہیں، گرمی یوم النشور

ایک زمانے سے ہے چاک گریباں مرا

تو ہے ابھی ہوش میں، میرے جنوں کا قصور

فیض نظر کے لیے ضبط سخن چاہیے

حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور

خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم

عشق ہو جس کا جسور ، فقر ہو جس کا غیور

 

 

تسلیم و رضا

 

 

ہر شاخ سے یہ نکتۂ پیچیدہ ہے پیدا

پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا

ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا

ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا

فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہ عمل بند

مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا

جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے

اے مرد خدا، ملک خدا تنگ نہیں ہے


 

نکتۂ توحید

 

بیاں میں نکتۂ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

وہ رمز شوق کہ پوشیدہ لاالٰہ میں ہے

طریق شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

سرور جو حق و باطل کی کارزار میں ہے

تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

جہاں میں بندۂ حر کے مشاہدات ہیں کیا

تری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

مقام فقر ہے کتنا بلند شاہی سے

روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!

 

الہام اور آزادئ جان و تن

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی

روح کس جوہر سے، خاک تیرہ کس جوہر سے ہے

میری مشکل، مستی و شور و سرور و درد و داغ

تیری مشکل، مے سے ہے ساغر کہ مے ساغر سے ہے

ارتباط حرف و معنی، اختلاط جان و تن

جس طرح اخگر قبا پوش اپنی خاکستر سے ہے!

 

لاہور و کراچی

 

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

آہ! اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں

حرف 'لا تدع مع اللہ الھاً آخر'

 

نبوت

 

 

میں نہ عارف ، نہ مجدد، نہ محدث ،نہ فقیہ

مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام

ہاں، مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر

فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام

عصر حاضر کی شب تار میں دیکھی میں نے

یہ حقیقت کہ ہے روشن صفت ماہ تمام

''وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش

جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام''

 

آدم

 

 

طلسم بود و عدم، جس کا نام ہے آدم

خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن

زمانہ صبح ازل سے رہا ہے محو سفر

مگر یہ اس کی تگ و دو سے ہو سکا نہ کہن

اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں

'وجود حضرت انساں نہ روح ہے نہ بدن،!

 

مکہ اور جنیوا

 

 

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم!

 

اے پیر حرم

 

 

اے پیر حرم! رسم و رہ خانقہی چھوڑ

مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے ان کو سبق خود شکنی ، خود نگری کا

تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار

مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا!

 

مہدی

 

 

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو

مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی

مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو

اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار

نومید ۂ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو

ہو زندہ کفن پوش تو میت اسے سمجھیں

یا چاک کریں مردک ناداں کے کفن کو؟

 

مرد مسلمان

 

 

ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان!

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمن

بنتے ہیں مری کارگہ فکر میں انجم

لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان

 

پنجابی مسلمان

 

 

مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت

کر لے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

 

آزادی

 

 

ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے

حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد

چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدہ پارس

چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد

قرآن کو بازیچۂ تاویل بنا کر

چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد

ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشا

اسلام ہے محبوس ، مسلمان ہے آزاد

 

اشاعت اسلام فرنگستان میں

 

ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی

فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام

بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں

قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام

اگر قبول کرے، دین مصطفی ، انگریز

سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

 

لاوالا

 

فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا

سفر خاکی شبستاں سے نہ کر سکتا اگر دانہ

نہاد زندگی میں ابتدا 'لا' ، انتہا 'الا'

پیام موت ہے جب 'لا ہوا الا' سے بیگانہ

وہ ملت روح جس کی 'لا 'سے آگے بڑھ نہیں سکتی

یقیں جانو، ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ

 

امرائے عرب سے

 

کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار

اگر نہ ہو امرائے عرب کی بے ادبی!

یہ نکتہ پہلے سکھایا گیا کس امت کو؟

وصال مصطفوی ، افتراق بولہبی!

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا

محمد عربی سے ہے عالم عربی

------------------------

بھوپال شیش محل میں لکھے گئے

 

احکام الہی

 

 

پابندی تقدیر کہ پابندی احکام!

یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مرد خرد مند

اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر

ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ، ابھی خورسند

تقدیر کے پابند نباتات و جمادات

مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

 

موت

 

 

لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے

اگر ہو زندہ تو دل ناصبور رہتا ہے

مہ و ستارہ ، مثال شرارہ یک دو نفس

مے خودی کا ابد تک سرور رہتا ہے

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے!

 

قم باذن اللہ

 

 

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے ، قم باذن اللہ

وہی زمیں ، وہی گردوں ہے ، قم باذن اللہ

کیا نوائے 'اناالحق' کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے ، قم باذن اللہ

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا

فرنگیوں کا یہ افسوں ہے ، قم باذن اللہ

 

تعلیم و تربیت

مقصود

(سپنوزا)

 

 

نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات کیا ہے ، حضور و سرور و نور و وجود

(فلاطوں(

 

نگاہ موت پہ رکھتا ہے مرد دانش مند

حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود

حیات و موت نہیں التفات کے لائق

فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود

-------------------------

ریاض منزل (دولت کدہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

 

زمانۂ حاضر کا انسان

 

 

'عشق ناپید و خرد میگزدش صورت مار'

عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا

آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!

 


 

اقوام مشرق

 

 

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو

آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر

یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور!

 

آگاہی

 

 

نظر سپہر پہ رکھتا ہے جو ستارہ شناس

نہیں ہے اپنی خودی کے مقام سے آگاہ

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا

وہی ہے مملکت صبح و شام سے آگاہ

وہی نگاہ کے ناخوب و خوب سے محرم

وہی ہے دل کے حلال و حرام سے آگاہ

 

 

مصلحین مشرق

 

 

میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے

کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگیں خالی

نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں

پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی!

 


 

مغربی تہذیب

 

 

فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب

کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید

ضمیر پاک و خیال بلند و ذوق لطیف

 

اسرار پیدا

 

 

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی

ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے

وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

موجوں کی تپش کیا ہے ، فقط ذوق طلب ہے

پنہاں جو صدف میں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرۂ افتاد

 

سلطان ٹیپو کی وصیت

 

 

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز

ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں

محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے

جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول

باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے

شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!

 

غزل

 

 

نہ میں اعجمی نہ ہندی ، نہ عراقی و حجازی

کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی

تو مری نظر میں کافر ، میں تری نظر میں کافر

ترا دیں نفس شماری ، مرا دیں نفس گدازی

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

کہ موافق تدرواں نہیں دین شاہبازی

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا

کہ سکھا سکے خرد کو رہ و رسم کارسازی

نہ جدا رہے نوا گر تب و تاب زندگی سے

کہ ہلاکی امم ہے یہ طریق نے نوازی

 

 

بیداری

 

 

جس بندۂ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار

شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق

اس کی نگہ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکی فطرت سے ہوا محرم اعماق


 

خودی کی تربیت

 

 

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

یہی ہے سر کلیمی ہر اک زمانے میں

ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز!

 

 

آزادی فکر

 

 

آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی

رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ

ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار

انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

 

خودی کی زندگی

 

 

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہ فقیر

خودی ہو زندہ تو دریائے بے کراں پایاب

خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیان و حریر

نہنگ زندہ ہے اپنے محیط میں آزاد

نہنگ مردہ کو موج سراب بھی زنجیر!


 

حکومت

 

 

ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن

شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار

بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات

گرچہ اس دیر کہن کا ہے یہ دستور قدیم

کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مینا کو ثبات

قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا

انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات!

--------------

ریاض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال میں لکھے گئے

 

 

 

ہندی مکتب

 

 

اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا

موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات

بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات

آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال

کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات!

آزاد کا ہر لحظہ پیام ابدیت

محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا

ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات

محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی

موسیقی و صورت گری و علم نباتات

 

تربیت

 

 

زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ

علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

اہل دانش عام ہیں ، کم یاب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ!

شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں

کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ!

 

 

خوب و زشت

 

 

ستارگان فضاہائے نیلگوں کی طرح

تخیلات بھی ہیں تابع طلوع و غروب

جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب

یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب

نمود جس کی فراز خودی سے ہو ، وہ جمیل

جو ہو نشیب میں پیدا ، قبیح و نامحبوب!

 

مرگ خودی

 

 

خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور

خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام

خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب

بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام

خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر

قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور

کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامۂ احرام!

 

مہمان عزیز

 

 

پر ہے افکار سے ان مدرسے والوں کا ضمیر

خوب و ناخوب کی اس دور میں ہے کس کو تمیز!

چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی

شاید آجائے کہیں سے کوئی مہمان عزیز

 

عصر حاضر

 

 

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی

اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام

مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر

چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام

مردہ ، 'لا دینی افکار سے افرنگ میں عشق

عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام!

 

طالب علم

 

 

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو

کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں

 

 

امتحان

 

 

کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے

فتادگی و سرا فگندگی تری معراج!

ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو

مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج

جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا

کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارہ یا کہ زجاج

 

مدرسہ

 

 

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا ، جس نے

قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش

دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا

زندگی موت ہے، کھو دیتی ہے جب ذوق خراش

اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا

جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش

فیض فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا

جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہ خفاش

مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو

خلوت کوہ و بیاباں میں وہ اسرار ہیں فاش

 

حکیم نطشہ

 

 

حریف نکتۂ توحید ہو سکا نہ حکیم

نگاہ چاہیے اسرار 'لا الہ' کے لیے

خدنگ سینۂ گردوں ہے اس کا فکر بلند

کمند اس کا تخیل ہے مہرو مہ کے لیے

اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی

ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے

 

اساتذہ

 

 

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخشاں

بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پر تو

دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار

کیا مدرسہ ، کیا مدرسے والوں کی تگ و دو!

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

 

 

غزل

 

 

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ

فروغ مغربیاں خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب 'مازاغ'

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

کیا ہے تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ


 

دین و تعلیم

 

 

مجھ کو معلوم ہیں پیران حرم کے انداز

ہو نہ اخلاص تو دعوئے نظر لاف و گزاف

اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

 

جاوید سے

(1)

 

 

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

دربار شہنشہی سے خوشتر

مردان خدا کا آستانہ

لیکن یہ دور ساحری ہے

انداز ہیں سب کے جادوانہ

سرچشمۂ زندگی ہوا خشک

باقی ہے کہاں م ے شبانہ!

خالی ان سے ہوا دبستاں

تھی جن کی نگاہ تازیانہ

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو

ہے اس کا مذاق عارفانہ

جوہر میں ہو 'لاالہ' تو کیا خوف

تعلیم ہو گو فرنگیانہ

شاخ گل پر چہک ولیکن

کر اپنی خودی میں آشیانہ!

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحر بیکرانہ

دہقان اگر نہ ہو تن آساں

ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

''غافل منشیں نہ وقت بازی ست

وقت ہنر است و کارسازی ست''

 

 

(2)

 

 

سینے میں اگر نہ ہو دل گرم

رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

نخچیر اگر ہو زیرک و چست

آتی نہیں کام کہنہ دامی

ہے آب حیات اسی جہاں میں

شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی

غیرت ہے طریقت حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

اے جان پدر! نہیں ہے ممکن

شاہیں سے تدرو کی غلامی

نایاب نہیں متاع گفتار

صد انوری و ہزار جامی!

ہے میری بساط کیا جہاں میں

بس ایک فغان زیر بامی

اک صدق مقال ہے کہ جس سے

میں چشم جہاں میں ہوں گرامی

اللہ کی دین ہے ، جسے دے

میراث نہیں بلند نامی

اپنے نور نظر سے کیا خوب

فرماتے ہیں حضرت نظامی

''جاے کہ بزرگ بایدت بود

فرزندی من نداردت سود''

 

 

(3)

 

 

مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز

دین و دولت ، قمار بازی!

ناپید ہے بندۂ عمل مست

باقی ہے فقط نفس درازی

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر

جس فقر کی اصل ہے حجازی

اس فقر سے آدمی میں پیدا

اللہ کی شان بے نیازی

کنجشک و حمام کے لیے موت

ہے اس کا مقام شاہبازی

روشن اس سے خرد کی آنکھیں

بے سرمۂ بوعلی و رازی

حاصل اس کا شکوۂ محمود

فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

تیری دنیا کا یہ سرافیل

رکھتا نہیں ذوق نے نوازی

ہے اس کی نگاہ عالم آشوب

درپردہ تمام کارسازی

یہ فقر غیور جس نے پایا

بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

مومن کی اسی میں ہے امیری

اللہ سے مانگ یہ فقیری


 

عورت

مرد فرنگ

 

 

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں

گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت پہ ظہور

کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

 

 

ایک سوال

 

 

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے

ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال

مرد بے کار و زن تہی آغوش!

 

پردہ

 

 

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے

خدایا یہ دنیا جہاں تھی ، وہیں ہے

تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے

وہ خلوت نشیں ہے ، یہ خلوت نشیں ہے

ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم

کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

 

خلوت

 

 

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ ، آئنہ دل ہے مکدر

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

خلوت میں خودی ہوتی ہے خودگیر ، و لیکن

خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

 

 

عورت

 

 

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

 

 

آزادی نسواں

 

 

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادئ نسواں کہ زمرد کا گلوبند!

 

 

عورت کی حفاظت

 

 

 

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

 

 

عورت اور تعلیم

 

 

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت

ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نا زن

کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن

ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

 


 

عورت

 

 

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

 

ادبیات ف


نون لطیفہ

 

 

دین و ہنر

 

 

سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

 

تخلیق

 

 

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا

ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے

عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا


 

جنوں

 

 

زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی

ستم ہے ، خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ!

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں

کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ

ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو

کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ

 

اپنے شعر سے

 

 

ہے گلہ مجھ کو تری لذت پیدائی کا

تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش

شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ

کر کسی سینۂ پر سوز میں خلوت کی تلاش!

 

 

پیرس کی مسجد

 

 

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

یہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

 

ادبیات

 

 

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے

یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے

 

نگاہ

 

 

بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی

شباب و مستی و ذوق و سرود و رعنائی!

اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی

یہ بحر ، یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!

سفر عروس قمر کا عماری شب میں

طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی!

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

----------------------

ریاض منزل(دولت کدئہ سرراس مسعود ) بھوپال میں لکھے گئے

 

مسجد قوت الاسلام

 

 

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی

'لاالہ' مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود

چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے

کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت ، وہ گداز

بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود

ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی ، نہ شکوہ

کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

 

تیاتر

 

 

تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود

حیات کیا ہے ، اسی کا سرور و سوز و ثبات

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی ، نہ ساز حیات

 

شعاع امید

(1)

 

 

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

 

 

(2)

 

 

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھویں سے ہے سیہ پوش

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

 

 

(3)

 

 

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور

آرام سے فارغ ، صفت جوہر سیماب

بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو

جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو

جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن

یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزۂ درناب

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی

جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

                    


                                                                       

امید

 

 

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں

اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور

عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی

اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں

کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی

نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود

------------------

ریاض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

 

نگاہ شوق

 

 

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند

ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

 

اہل ہنر سے

 

 

مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ

عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک

ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار

تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو

تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود

 

غزل

 

 

دریا میں موتی ، اے موج بے باک

ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک

میرے شرر میں بجلی کے جوہر

لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

تیرا زمانہ ، تاثیر تیری

ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک

ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے

جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

کامل وہی ہے رندی کے فن میں

مستی ہے جس کی بے منت تاک

رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

اہل نظر ہیں یورپ سے نومید

ان امتوں کے باطن نہیں پاک

 

وجود

 

 

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود

 

سرود

 

 

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرود مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

دل کیا ہے ، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے

کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات

کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں

جچتی نہیں ہے سلطنت روم و شام و رے

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

نسیم و شبنم

نسیم

 

 

انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی

کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک

مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر

بے ذوق ہیں بلبل کی نوا ہائے طرب ناک

دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم

خاک چمن اچھی کہ سرا پردۂ افلاک!

 

 

شبنم

 

 

کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک

گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک

 

اہرام مصر

 

 

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر!

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر

 

مخلوقات ہنر

 

 

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر

فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات

نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور

زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم

عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!

تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام

نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!

 

اقبال

 

 

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!

 

فنون لطیفہ

 

 

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا

جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا ، وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

 

صبح چمن

 

پھول

 

 

شاید تو سمجھتی تھی وطن دور ہے میرا

اے قاصد افلاک! نہیں ، دور نہیں ہے

 

 

شبنم

 

 

ہوتا ہے مگر محنت پرواز سے روشن

یہ نکتہ کہ گردوں سے زمیں دور نہیں ہے

 

 

صبح

 

 

مانند سحر صحن گلستاں میں قدم رکھ

آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے

ہو کوہ و بیاباں سے ہم آغوش ، و لیکن

ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے!

 

خاقانی

 

 

وہ صاحب 'تحفۃ العراقین،

ارباب نظر کا قرۃالعین

ہے پردہ شگاف اس کا ادراک

پردے ہیں تمام چاک در چاک

خاموش ہے عالم معانی

کہتا نہیں حرف 'لن ترانی'!

پوچھ اس سے یہ خاک داں ہے کیا چیز

ہنگامۂ این و آں ہے کیا چیز

وہ محرم عالم مکافات

اک بات میں کہہ گیا ہے سو بات

''خود بوے چنیں جہاں تواں برد

کابلیس بماند و بوالبشر مرد!''


 

رومی

 

 

غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک

ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک

ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک

کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک

گسستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک

کہ تو ہے نغمۂ رومی سے بے نیاز اب تک!

 

جدت

 

 

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے

افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے

خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے

ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے

دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے

شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟

 

مرزا بیدل

 

 

ہے حقیقت یا مری چشم غلط بیں کا فساد

یہ زمیں، یہ دشت ، یہ کہسار ، یہ چرخ کبود

کوئی کہتا ہے نہیں ہے ، کوئی کہتاہے کہ ہے

کیا خبر ، ہے یا نہیں ہے تیری دنیا کا وجود!

میرزا بیدل نے کس خوبی سے کھولی یہ گرہ

اہل حکمت پر بہت مشکل رہی جس کی کشود!

''دل اگر میداشت وسعت بے نشاں بود ایں چمن

رنگ مے بیروں نشست از بسکہ مینا تنگ بود''

 

جلال و جمال

 

 

مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی

ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک

مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی

کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک

نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر

نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک

مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ

کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک!

 

مصور

 

 

کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل

ہندی بھی فرنگی کا مقلد ، عجمی بھی !

مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد

کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی

معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات

صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی ، نئی بھی

فطرت کو دکھایا بھی ہے ، دیکھا بھی ہے تو نے

آئینۂ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی!


 

سرود حلال

 

کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم و زیر سے دل

نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود!

ہے ابھی سینۂ افلاک میں پنہاں وہ نوا

جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود

جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک

اور پیدا ہو ایازی سے مقام محمود

مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے

تو رہے اور ترا زمزمۂ لا موجود

جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی

منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود!

 

سرود حرام

 

 

نہ میرے ذکر میں ہے صوفیوں کا سوز و سرور

نہ میرا فکر ہے پیمانۂ ثواب و عذاب

خدا کرے کہ اسے اتفاق ہو مجھ سے

فقیہ شہر کہ ہے محرم حدیث و کتاب

اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام

حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب!

 

فوارہ

 

 

یہ آبجو کی روانی ، یہ ہمکناری خاک

مری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ

ادھر نہ دیکھ ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز

بلند زور دروں سے ہوا ہے فوارہ

 

شاعر

 

 

مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے

شاعر ! ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم

اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے

شیشے کی صراحی ہو کہ مٹی کا سبو ہو

شمشیر کی مانند ہو تیزی میں تری مے

ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے

بے معرکہ ہاتھ آئے جہاں تخت جم و کے

ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی

اللہ کرے مرحلۂشوق نہ ہو طے!

 

 

شعر عجم

 

 

 

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز

اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز

افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں

بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

وہ ضرب اگر کوہ شکن بھی ہو تو کیا ہے

جس سے متزلزل نہ ہوئی دولت پرویز

اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ

'از ہر چہ بآئینہ نمایند بہ پرہیز'

 


 

ہنروران ہند

 

 

عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا

ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار

موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں

زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار

چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند

کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار!

 

مرد بزرگ

 

 

اس کی نفرت بھی عمیق ، اس کی محبت بھی عمیق

قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں

ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو

شمع محفل کی طرح سب سے جدا ، سب کا رفیق

مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں

بات میں سادہ و آزادہ، معانی میں دقیق

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا

اس کے احوال سے محرم نہیں پیران طریق


 

عالم نو

 

 

زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر

خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر

اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار اسے

کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

بدن اس تازہ جہاں کا ہے اسی کی کف خاک

روح اس تازہ جہاں کی ہے اسی کی تکبیر

 

ایجاد معانی

 

 

ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد

کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد!

خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر

میخانۂ حافظ ہو کہ بتخانۂ بہزاد

بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شرر تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد!

 

 

موسیقی

 

 

وہ نغمہ سردی خون غزل سرا کی دلیل

کہ جس کو سن کے ترا چہرہ تاب ناک نہیں

نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود

وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں

پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں

کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں

 

ذوق نظر

 

 

 

خودی بلند تھی اس خوں گرفتہ چینی کی

کہا غریب نے جلاد سے دم تعزیر

ٹھہر ٹھہر کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر

ذرا میں دیکھ تو لوں تاب ناکی شمشیر!

 

 

شعر

 

 

میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن

یہ نکتہ ہے ، تاریخ امم جس کی ہے تفصیل

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے

یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

 

 

رقص و موسیقی

 

 

شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن

شعر گویا روح موسیقی ہے ، رقص اس کا بدن


 

ضبط

 

 

طریق اہل دنیا ہے گلہ شکوہ زمانے کا

نہیں ہے زخم کھا کر آہ کرنا شان درویشی

یہ نکتہ پیر دانا نے مجھے خلوت میں سمجھایا

کہ ہے ضبط فغاں شیری ، فغاں روباہی و میشی!

 

 

رقص

 

 

 

چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ

روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم اللہی!

صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن

صلہ اس رقص کا درویشی و شاہنشاہی


 

سیاسیاست مشرق و مغرب

اشتراکیت

 

 

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

جو حرف 'قل العفو' میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

 

 

کارل مارکس کی آواز

 

 

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش

جہان مغرب کے بت کدوں میں ، کلیسیاؤں میں ، مدرسوں میں

ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش

 


 

انقلاب

 

 

نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات

خودی کی موت ہے یہ ، اور وہ ضمیر کی موت

دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا

قریب آگئی شاید جہان پیر کی موت!

 

خوشامد

 

 

میں کار جہاں سے نہیں آگاہ ، ولیکن

ارباب نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز

کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد

دستور نیا ، اور نئے دور کا آغاز

معلوم نہیں ، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت

کہہ دے کوئی الو کو اگر 'رات کا شہباز

 

 مناصب

 

 

ہوا ہے بندۂ مومن فسونی افرنگ

اسی سبب سے قلندر کی آنکھ ہے نم ناک

ترے بلند مناصب کی خیر ہو یارب

کہ ان کے واسطے تو نے کیا خودی کو ہلاک

مگر یہ بات چھپائے سے چھپ نہیں سکتی

سمجھ گئی ہے اسے ہر طبیعت چالاک

شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے

خریدتے ہیں فقط ان کا جوہر ادراک!

 

 

یورپ اور یہود

 

 

یہ عیش فراواں ، یہ حکومت ، یہ تجارت

دل سینۂ بے نور میں محروم تسلی

تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھویں سے

یہ وادی ایمن نہیں شایان تجلی

ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ

شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!

 

نفسیات غلامی

 

شاعر بھی ہیں پیدا ، علما بھی ، حکما بھی

خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک

ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ،

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

 

غلاموں کے لیے

 

 

حکمت مشرق و مغرب نے سکھایا ہے مجھے

ایک نکتہ کہ غلاموں کے لیے ہے اکسیر

دین ہو ، فلسفہ ہو ، فقر ہو ، سلطانی ہو

ہوتے ہیں پختہ عقائد کی بنا پر تعمیر

حرف اس قوم کا بے سوز ، عمل زار و زبوں

ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر!

 

اہل مصر سے

 

 

خود ابوالہول نے یہ نکتہ سکھایا مجھ کو

وہ ابوالہول کہ ہے صاحب اسرار قدیم

دفعتہً جس سے بدل جاتی ہے تقدیر امم

ہے وہ قوت کہ حریف اس کی نہیں عقل حکیم

ہر زمانے میں دگر گوں ہے طبیعت اس کی

کبھی شمشیر محمد ہے ، کبھی چوب کلیم!

 

 

ابی سینیا

 

(18 اگست1935 )

 

 

یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر

ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش

ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش!

تہذیب کا کمال شرافت کا ہے زوال

غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش

ہر گرگ کو ہے برہ معصوم کی تلاش!

اے وائے آبروئے کلیسا کا آئنہ

روما نے کر دیا سر بازار پاش پاش

پیر کلیسیا ! یہ حقیقت ہے دلخراش!

 


 

جمعیت اقوام مشرق

 

 

پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر

کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے

دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب

ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے

طہران ہو گر عالم مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

----------------

بھوپال(شیش محل) میں لکھے گئے

 

سلطانی جاوید

 

 

غواص تو فطرت نے بنایا ہے مجھے بھی

لیکن مجھے اعماق سیاست سے ہے پرہیز

فطرت کو گوارا نہیں سلطانی جاوید

ہر چند کہ یہ شعبدہ بازی ہے دل آویز

فرہاد کی خارا شکنی زندہ ہے اب تک

باقی نہیں دنیا میں ملوکیت پرویز

 

جمہوریت

 

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

-----------

استاں دال

 

یورپ اور سوریا

 

 

فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا

نبی عفت و غم خواری و کم آزاری

صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیے

مے و قمار و ہجوم زنان بازاری

 

مسولینی

(اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے)

 

 

کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم!

بے محل بگڑا ہے معصومان یورپ کا مزاج

میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں

ہیں سبھی تہذیب کے اوزار ! تو چھلنی ، میں چھاج

میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم

تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟

یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں

راجدھانی ہے ، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج

آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے

اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!

تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام

تم نے لوٹی کشت دہقاں ، تم نے لوٹے تخت و تاج

پردۂ تہذیب میں غارت گری ، آدم کشی

کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج

---------

ــ 22 اگست 1935 ء کو بھوپال (شیش محل) میں لکھے گئے


 

گلہ

 

 

معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک

بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے

دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمیں ہے

جاں بھی گرو غیر ، بدن بھی گرو غیر

افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے

یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو

مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے ، یورپ سے نہیں ہے

 

انتداب

 

 

کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے

نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری

جہاں قمار نہیں ، زن تنک لباس نہیں

جہاں حرام بتاتے ہیں شغل مے خواری

بدن میں گرچہ ہے اک روح ناشکیب و عمیق

طریقۂ اب و جد سے نہیں ہے بیزاری

جسور و زیرک و پردم ہے بچۂ بدوی

نہیں ہے فیض مکاتب کا چشمۂ جاری

نظروران فرنگی کا ہے یہی فتوی

وہ سرزمیں مدنیت سے ہے ابھی عاری

 


 

لادین سیاست

 

 

جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی

خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خبیر و بصیر

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں

کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر

متاع غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی

تو ہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر

 

دام تہذیب

 

 

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے

ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار

یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے

بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار

جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل

تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار

ترکان 'جفا پیشہ' کے پنجے سے نکل کر

بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

 

نصیحت

 

 

اک لرد فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

برے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

سینے میں رہے راز ملوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھیر

تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

 

ایک بحری قزاق اور سکندر

سکندر

 

 

صلہ تیرا تری زنجیر یا شمشیر ہے میری

کہ تیری رہزنی سے تنگ ہے دریا کی پہنائی

 

قزاق

 

سکندر ! حیف ، تو اس کو جواں مردی سمجھتا ہے

گوارا اس طرح کرتے ہیں ہم چشموں کی رسوائی؟

ترا پیشہ ہے سفاکی ، مرا پیشہ ہے سفاکی

کہ ہم قزاق ہیں دونوں ، تو میدانی ، میں دریائی

 

جمعیت اقوام

 

 

بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے

ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے

تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے ولیکن

پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے

ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرک افرنگ

ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے

 

شام و فلسطین

 

 

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت

پر ہے مۓ گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور

قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

 

سیاسی پیشوا

 

 

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے

یہ خاک باز ہیں ، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی

جہاں میں صفت عنکبوت ان کی کمند

خوشا وہ قافلہ ، جس کے امیر کی ہے متاع

تخیل ملکوتی و جذبہ ہائے بلند

 

نفسیات غلامی

 

 

سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب

کھول کر کہیے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی

دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ

دیکھتے ہیں فقط اک فلسفۂ روباہی

ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید

قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی


 

غلاموں کی نماز

(ترکی وفد ہلال احمر لاہور میں)

 

 

کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز

طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمھارے امام

وہ سادہ مرد مجاہد ، وہ مومن آزاد

خبر نہ تھی اسے کیا چیز ہے نماز غلام

ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں

انھی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام

بدن غلام کا سوز عمل سے ہے محروم

کہ ہے مرور غلاموں کے روز و شب پہ حرام

طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے

ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام

خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو

وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام

 

 

فلسطینی عر ب سے

 

 

زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ

میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں

فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے ، غلامی سے امتوں کی نجات

خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

 


 

مشرق و مغرب

 

 

یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید

وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری

نہ مشرق اس سے بری ہے ، نہ مغرب اس سے بری

جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری

 

 

نفسیات حاکمی

 

(اصلاحات)

 

 

یہ مہر ہے بے مہری صیاد کا پردہ

آئی نہ مرے کام مری تازہ صفیری

رکھنے لگا مرجھائے ہوئے پھول قفس میں

شاید کہ اسیروں کو گوارا ہو اسیری


 

محراب گل افغان کے افکار

 

(1)

 

 

میرے کہستاں! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرغ

لالہ و گل سے تہی ، نغمۂ بلبل سے پاک

تیرے خم و پیچ میں میری بہشت بریں

خاک تری عنبریں ، آب ترا تاب ناک

باز نہ ہوگا کبھی بندۂ کبک و حمام

حفظ بدن کے لیے روح کو کردوں ہلاک!

اے مرے فقر غیور ! فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک!

 

(2)

 

 

حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام

نگاہ پیر فلک میں نہ میں عزیز ، نہ تو

خودی میں ڈوب ، زمانے سے نا امید نہ ہو

کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمام رفو

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اتر گیا جو ترے دل میں 'لاشریک لہ'

 

(3)

 

 

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

وہی شراب ، وہی ہاے و ہو رہے باقی

طریق ساقی و رسم کدو بدل جائے

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

 

(4)

 

 

کیا چرخ کج رو ، کیا مہر ، کیا ماہ

سب راہرو ہیں واماندۂ راہ

کڑکا سکندر بجلی کی مانند

تجھ کو خبر ہے اے مرگ ناگاہ

نادر نے لوٹی دلی کی دولت

اک ضرب شمشیر ، افسانۂ کوتاہ

افغان باقی ، کہسار باقی

الحکم للہ ! الملک للہ !

حاجت سے مجبور مردان آزاد

کرتی ہے حاجت شیروں کو روباہ

محرم خودی سے جس دم ہوا فقر

تو بھی شہنشاہ ، میں بھی شہنشاہ!

قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش

جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

 

(5)

 

 

 

یہ مدرسہ یہ کھیل یہ غوغائے روارو

اس عیش فراواں میں ہے ہر لحظہ غم نو

وہ علم نہیں ، زہر ہے احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

ناداں ! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو

فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند

شام اس کی ہے مانند سحر صاحب پرتو

وہ صاحب فن چاہے تو فن کی برکت سے

ٹپکے بدن مہر سے شبنم کی طرح ضو!

 

(6)

 

 

جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد

ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو

کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ

اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک!

ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ

 

(7)

 

 

رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان

تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقان

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

اونچی جس کی لہر نہیں ہے ، وہ کیسا دریا

جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں ، وہ کیسا طوفان

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ

اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج

عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

اپنی خودی پہچان

او غافل افغان!

 

(8)

 

 

زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر

شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر

لیکن اے شہباز! یہ مرغان صحرا کے اچھوت

ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر

ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام

روح ہے جس کی دم پرواز سر تا پا نظر!

 

(9)

 

 

عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس

پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس

یوں بھی دستور گلستاں کو بدل سکتے ہیں

کہ نشیمن ہو عنادل پہ گراں مثل قفس

سفر آمادہ نہیں منتظر بانگ رحیل

ہے کہاں قافلۂ موج کو پروائے جرس!

گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے

مردہ ہے ، مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس

پرورش دل کی اگر مد نظر ہے تجھ کو

مرد مومن کی نگاہ غلط انداز ہے بس!

 

(10)

 

 

وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا

شباب جس کا ہے بے داغ ، ضرب ہے کاری

اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر

اگر ہو صلح تو رعنا غزال تاتاری

عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز

کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری

خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی

کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری

نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو

یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری

 

(11)

 

 

جس کے پرتو سے منور رہی تیری شب دوش

پھر بھی ہو سکتا ہے روشن وہ چراغ خاموش

مرد بے حوصلہ کرتا ہے زمانے کا گلہ

بندۂ حر کے لیے نشتر تقدیر ہے نوش

نہیں ہنگامہ پیکار کے لائق وہ جواں

جو ہوا نالۂ مرغان سحر سے مدہوش

مجھ کو ڈر ہے کہ ہے طفلانہ طبیعت تیری

اور عیار ہیں یورپ کے شکر پارہ فروش!

 

(12)

 

 

لا دینی و لاطینی ، کس پیچ میں الجھا تو

دارو ہے ضعیفوں کا 'لاغالب الا ھو'

صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی

دلکش ہے فضا ، لیکن بے نافہ تمام آہو

بے اشک سحر گاہی تقویم خودی مشکل

یہ لالۂ پیکانی خوشتر ہے کنار جو

صیاد ہے کافر کا ، نخچیر ہے مومن کا

یہ دیر کہن یعنی بتخانۂ رنگ و بو

اے شیخ ، امیروں کو مسجد سے نکلوا دے

ہے ان کی نمازوں سے محراب ترش ابرو

 

(13)

 

 

مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں

معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا

ہر سینے میں اک صبح قیامت ہے نمودار

افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا

کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی

اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا

ممکن نہیں تخلیق خودی خانقہوں سے

اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!

 

(14)

 

 

بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی

بازو ہے قوی جس کا ، وہ عشق یداللہی

جو سختی منزل کو سامان سفر سمجھے

اے وائے تن آسانی ! ناپید ہے وہ راہی

وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی!

کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی

دنیا ہے روایاتی ، عقبی ہے مناجاتی

در باز دو عالم را ، این است شہنشاہی!

 

(15)

 

 

آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاہد

مشکل نہیں اے سالک رہ ! علم فقیری

فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق

پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری

خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہر الہی

ہو صاحب غیرت تو ہے تمہید امیری

افرنگ ز خود بے خبرت کرد وگرنہ

اے بندۂ مومن ! تو بشیری ، تو نذیری!

 

 

(16)

 

 

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی

ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے ، خدائی!

جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند

اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی

اس دور میں بھی مرد خدا کو ہے میسر

جو معجزہ پربت کو بنا سکتا ہے رائی

در معرکہ بے سوز تو ذوقے نتواں یافت

اے بندۂ مومن تو کجائی ، تو کجائی

خورشید ! سرا پردۂ مشرق سے نکل کر

پہنا مرے کہسار کو ملبوس حنائی

 

 (17)

 

 

آگ اس کی پھونک دیتی ہے برنا و پیر کو

لاکھوں میں ایک بھی ہو اگر صاحب یقیں

ہوتا ہے کوہ و دشت میں پیدا کبھی کبھی

وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں

تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ

خالی رکھی ہے خامۂ حق نے تری جبیں

یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں

ہمت ہو پرکشا تو حقیقت میں کچھ نہیں

بالائے سر رہا تو ہے نام اس کا آسماں

زیر پر آگیا تو یہی آسماں ، زمیں!

 

(18)

 

 

یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے

کہ امتیاز قبائل تمام تر خواری

عزیز ہے انھیں نام وزیری و محسود

ابھی یہ خلعت افغانیت سے ہیں عاری

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی

کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری

وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات

خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!

 

(19)

 

 

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے

نگاہ وہ ہے کہ محتاج مہر و ماہ نہیں

فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن

قدم اٹھا! یہ مقام انتہائے راہ نہیں

کھلے ہیں سب کے لیے غربیوں کے میخانے

علوم تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں

اسی سرور میں پوشیدہ موت بھی ہے تری

ترے بدن میں اگر سوز 'لاالہ' نہیں

سنیں گے میری صداخانزاد گان کبیر؟

گلیم پوش ہوں میں صاحب کلاہ نہیں!

 

(20)

 

 

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی

دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا

ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی

یہ حسن و لطافت کیوں ؟ وہ قوت و شوکت کیوں

بلبل چمنستانی ، شہباز بیابانی!

اے شیخ ! بہت اچھی مکتب کی فضا ، لیکن

بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی

صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا

تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی